Pages

Wednesday 29 June 2011

AJ KA MUSALMAN

آج مسلمانوںکے گھروںمیں پیدا ہونے والے رسمی مسلمان ڈاڑھی منڈوا کر، شراب پی کر اورمغربی لباس زیب تن کرکے اہل کفرکو یہ یقین دلا رہے ہیں کہ وہ بنیاد پرست نہیں ہیں۔ وہ نماز، روزہ، حج اور زکوٰةتک ترک کرکے روشن خیال بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تمام مسلمان ممالک میں اللہ کے قرآن کو قید کرکے مغربی نظام زندگی کو رواج دیا جا رہا ہے۔ کتنے ہی مسلمان ممالک میں عورتوں کو نقاب پہننے کی اجازت نہیں۔ اسلامی مدارس قائم کرنے پر طرح طرح کی پابندیاں ہیں جبکہ شراب نوشی، بے حیائی، کرپشن، بے ہودگی اور بے شرمی کے کاموں کی کھلی چھوٹ ہے۔ مسلمانوںکا مقتدرٹولا استعماری ایجنٹ کا کردار ادا کر رہا ہے۔ تمام مسلم ممالک کے سول اور فوجی عہدیدار، سیاستدان اور اشرافیہ کے لوگ اسلام بیزاری کا ثبوت دے کر استعمار کے قریب ہونے کی فکر میں ہیں۔ الغرض مسلمان اشرافیہ کے لیے اسلام سے وابستگی، قرآن سے تعلق اور محمد عربی ﷺ کی اطاعت زمانے میں ترقی کرنے کے لیے سد راہ بنی ہوئی ہے اور وہ ہر ممکن طریقے سے اسلام سے لاتعلقی کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ مغربی استعمار دنیا میں ابھرتے ہوئے اسلام سے خائف ہے اور دنیا کے کونے کونے میں اسلام کے علمبرداروں کی تلاش اور بیخ کنی میں مصروف ہے۔ وہ اسلام کو محض پوجا پاٹ کے مذہب کے طور پر قبول کرنے کو تیار ہے لیکن امت مسلمہ کے تصور اور سیاسی اسلام کو ایک منٹ کے لیے بھی قبول کرنے کو تیارہے۔ افغانستان، الجزائر، فلسطین، ایران اور سوڈان میں اسلامی تحریکوں کے احیاءنے اہل مغرب کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ اسلام کا تصور امت دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک قوم اور ایک امت خیال کرتا ہے جبکہ استعماری نظام نے انسانوں کو جغرافیائی حدود میں قید کر رکھا ہے اور مختلف ممالک کے شہریوں کو صرف اس ملک تک قید کر رکھا ہے۔ ایک ملک کے شہریوں کا دوسرے ملک کے شہریوں سے کوئی رشتہ اور تعلق قائم نہیں رہنے دیا۔ اسلام واحد دین ہے جو رنگ، نسل اور جغرافیے کی امتیازی سرحدوں کو بے معنی سمجھتے ہوئے پوری دنیا کے انسانوں کو ایک معاشرے کے فرد کے طور پر تصور کرتا ہے اور عقیدے کے بنیاد پر انہیں بھائی، بھائی قرار دیتا ہے۔ یہ وہ تعلق ہے جو امریکا، روس، برطانیہ، الجزائر، ایران ،فلسطین اور ترکی کے انسانوںکو اخوت کے دیرپا رشتے میں جوڑتا ہے۔ اسلامی کا عالمگیر تصور استعمار کو خوف سے مارے ڈال رہا ہے۔مغرب مسلمانوں پر جس قدر ظلم کررہا ہی، اسلام اسی قدر زیادہ قوت سے ابھرتا ہوا نظر آرہا ہے۔ ماضی قریب میں جتنے مغربی لوگوں کو براہ راست مسلمانوں سے معاملہ کرنے کا موقع ملا، وہ ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ جن میں بڑے بڑے نام بھی شامل ہیں۔ آج آپ کی ملاقات امریکی فوج کے ایک گارڈ ٹیری بروکس سے کرواتے ہیں۔ امریکا نے 2003ءمیں اس کی ڈیوٹی گوانتا ناموبے میں مسلمان قیدیوں کے کیمپ میں لگائی۔ ٹیری بروکس نے جب گوانتا ناموبے میں قید القاعدہ اور طالبان کے لوگوں کو سخت ترین حالات میں مطمئن اور راضی دیکھا تو وہ حیران رہ گیا کہ اس جہنم میں جہاں امریکا نے انہیں پریشان کرنے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے ہوئے ہیں، وہ پورے اطمینان سے ظلم اور جبر کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ استقامت کی اس حد کو دیکھنے کے بعد بروکس نے ان قیدیوں میں دلچسپی لینا شروع کی اور گاہے گاہے ان کے قیدخانوں کے قریب جاکر بات چیت کرنے لگا۔ اس دوران الرشدی نامی ایک قیدی نمبر 590 سے میل ملاپ بڑھا ، جس کی وساطت سے اسے اسلام کے بارے میں معلومات ہوئیں اور اس نے اسلام قبول کر لیا۔ بروکس نے تبدیلی مذہب کو راز میں رکھا لیکن اس دوران ایک امریکی آفیسر کو پتا چلا، تب سے امریکی حکام نے اس سے امتیازی سلوک روا رکھنا شروع کر دیا اور اس کو واپس امریکا بھیج دیا۔ امریکا جانے سے پہلے ہی بروکس مصطفیٰ عبداللہ کے نام سے موسوم ہو چکا تھا۔ اس نے واپس امریکا جاتے ہیں فوج کی نوکری سے جان چھڑائی اور گوانتا ناموبے میں قید مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کرنے لگا۔ مئی 2011 میں مصطفیٰ عبداللہ نے عمرہ کی سعادت حاصل کی اور روزنامہ عکاظ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں اسلام کی حقانیت سے آگاہ ہو چکا ہوں، یہ سچا دین ہے اور اسی میں پوری انسانیت کی بقا اور سلامتی ہے۔ اس نے اپنی زندگی گوانتاناموبے میں قید مسلمانوں کی رہائی اور اسلام کی حقیقت جاننے تک کے سفر کی روداد لکھنے پر صرف کرنے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے تجربات منظر عام پر لانا چاہتا ہوں تاکہ دنیا اسلام کو امریکی نہیں بلکہ اپنی آنکھ سے دیکھ سکے۔آج دنیا میں دو طرح کے مسلمان چھٹ کر سامنے آرہے ہیں۔ ایک گروہ وہ ہے جو پوری دنیا کے خوف سے بے نیاز ہوکر اسلام کی حقانیت پر قائم ہے اور اس کے غلبے کے لیے ہر جگہ اور ہر حال میں جدوجہد کر رہا ہے اور دوسرا گروہ جو اسلام سے اپنی وابستگی سے بھی خائف ہے اور اسلام پسندی کی ہر علامت سے نجات حاصل کرکے استعماری قوتوں کی اشیرباد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یقینا جو لوگ استعمار کو زندگی اور موت، نفع اور نقصان ، خوشی اور غم دینے کا مکلف سمجھتے ہیں وہ ان کی اطاعت کر رہے ہیں اور جو لوگ صرف اللہ کی ذات کو نفع اور نقصان، زندگی اور موت، عزت اور ذلت دینے والا کارساز سمجھتے ہیں وہ تمام دنیاوی خداوں سے انکارکرکے ، تمام خطرات کے بے خوف ہو کر اسلام کے غلبے کے لیے کوشاں ہیں۔ یقینا اسلام پوری دنیا پر اپنی حقانیت ثابت کرکے رہے گا، یہی اللہ کا وعدہ ہے۔ اس وقت تک قیامت برپا نہیں ہوگی جب تک اسلام پوری دنیا پر آشکار نہیں ہو جائے گا۔ وقت تیزی سے اس طرف جا رہا ہے۔ اہل ایمان اپنا فرض ادا کر رہے ہیں اور نام نہاد مسلمان اسلام سے دوری اختیار کر نے میں عافیت سمجھ رہے ہیں۔